Love Poetry
Dear aap hamari site pr aa kar latad urdu k ashar parh sakty hain, Aur dear aap social media app Facebook Instagram Twitter and Instagram Twitter and Instagram Etc pr share karna na bolna.
love poetry |
فقط ہماری ہوس پر تو انگلیاں نہ اٹھا
تیرا بدن بھی ملوث تھا اس شرارت میں
سونپ دی جاتی ہے جب کسی اِک کو دل کی سلطنت
پھر کسی دوسرے کو تختِ دل کا تاج پہنایا نہیں جاتا
آپ کے ہونٹوں سے لپٹے لفظوں کی قسم
آپکی گفتگو مجھے رُوح کی شفا لگتی ہے
تھا آج اہتمام تماشائے کائنات کا
لیکن نِگاہ رُک گئی تصویرِ یار پر
یوں بھی ہوتا ہے کہ یکدم کوئی اچھا لگ جائے
بات کچھ بھی نہ ہو اور دل میں تماشا لگ جائے
Read More : Urdu Poetry
وحدتِ عشق کا تقاضہ ہے ہر نظارے میں تو نظر آئے
توڑا ہے ہم نے اس طرح صیاد کا غُرور
سینے پہ تیر کھا کے بھی جاری اُڑان ہے
ہم لوگ مزاروں کے چراغوں کی طرح ہیں
رُوشن کیے جاتے ہیں بُجھائے نہیں جاتے
میں نے ہر بار نئی آنکھ سے دیکھا تُجھکو
مُجھکو ہر بار نیا عشق ہوا ہے تجھ سے
ہزاروں کا ہجوم ہے دل کے آس پاس
دل پھر بھی دھڑکتا ہے ایک ہی نام سے
Love Poetry In Urdu
کچھ عادتیں ہیں میری جو چھوٹتی نہیں
شمار تیرا بھی متاعِ جاں ان ہی میں ہے
تم ہو یوسف کے قبیلے سے تمہیں کیا معلوم
حبش سے آئے ہوئے شخص کی قیمت کیا ہے
ہاتھ جوڑ کے سائیں عرض کراں
میرے دل دا شہر ویران نہ کر
تو اپنی سانولی رنگت پہ ہو چلی ہے اداس
زوالِ حُسن کی وحشت کسی حسیِن سے پوچھ
میخانے سے دار تلک اپنی ہی کہانی بھی بِکھری تھی
رند بنے سرمستی میں ، کچھ اور بڑھے خاک ہوئے
خم و سبُو کی ضرورت کے ہم نہیں قائل
شراب مست نظر سے پلائی جاتی ہے
دراز قامت گُلاب چہرہ خُمار آنکھیں اُجال رکھنا
تیری اداؤں پہ مر نہ جائیں خدا کی بندی خیال رکھنا
ہو سکے تو آ جاؤ تھوڑی دیر نظر کے سامنے
تیرا دیدار پانے کو ہم بڑے بے قرار بیٹھے ہیں
خوشبو سے بھری شام میں گُلاب کے قلم سے
اِک نظم تیرے واسطے لکھیں گے کسی روز
یہ ضروری تو نہیں جو اچھا لگے وہ مل بھی جائے
کچھ لوگ تو اچھے لگتے ہیں سدا دل میں رہنے کے لئے
اس کو پانے کا کہاں سوچا تھا
اچھا لگتا تھا سو محبت کرلی
میری کائنات میں کئی ستارے ہیں زیرِ گردش
میں جس کی گردشوں میں ہوں وہ ایک چاند تم ہو
میں نے تو یُوں ہی دیکھا تھا دیدارِ شوق کی خاطر
تم دل میں اُتر جاؤ گے کبھی سوچا نہ تھا
علاج عشق جو پوچھا میں نے طبیب سے
دھیمے سے لہجے میں بولا چائے پیا کرو
ایک تیرے عشق پہ سب وار دئیے ہیں میں نے
رنگ جو تین سو پینسٹھ تھے میری آنکھوں میں
بات تو چاہت سے بھری اِک نظر کی ہوتی ہے
ہر کسی سے کہا کرتی ہیں کلام آنکھیں
یہ محبت ہے یا عقیدت نہیں معلوم
وہ اگر سامنے بھی ہو تو دیکھا نہیں جاتا
طلب کریں تو یہ آنکھیں بھی ان کو دے دوں میں
مگر یہ لوگ ان آنکھوں کے خواب مانگتے ہیں
عشق ہوتا نہیں اُترتا ہے
غار دل میں کسی وحی کی طرح
میری بات چھوٹی ہے لیکن کہنا ضروری ہے
میری دھڑکن چلنے کے لئے تیرا ہونا ضروری ہے
اول تو زمانے میں نہیں تم سہ کوئی اور
اگر ہو بھی تو ہم کون سہ تسلیم کریں گے
قسم لے لو دل اِک پل بھی غافل نہیں تیری یاد سے
یہ اور بات ہے کہ ہم سرِ عام پُکارا نہیں کرتے
دوا سے حل نہ ہوا تو دعا پہ چھوڑ دیا
تیرا معاملہ ہم نے خدا پہ چھوڑ دیا
محبت کا ارادہ کیا نہیں ہے مگر
وہ ایسے خلوص سے ملتا رہا تو دیکھیں گے
سرد موسم ہلکے بادل اور اداس نومبر کی آخری شام
تیری یادوں سے جڑا ہے یہ تعلق دل کا
تو نظر نہ آئے تو ٹھہر جاتی ہے دل کی دھڑکن
وہ گر جائے جو پھر ہمارے قدموں میں
ہم جو ہٹ جائیں تو کیا تماشا ہو
مُرشد ان سے کہنا ان کی یاد آتی ہے
مُرشد یہ بھی کہنا کہ میں رُو پڑتا ہوں
تمہیں کاسئہِ دل میں یوں سجا کے رکھتے ہیں
ہتھیلیوں پر جیسے دعاؤں کے چراغ جلتے ہیں
چاندنی پھوٹتی ہے اس کے بدن سے
ہم تو جاناں کی کمر کو بھی قمر بولتے ہیں
مصر کے بازار میں کسی قہوہ خانے پر
داستان گو کا سنایا ہوا قصہ ہے وہ شخص
دنیا تو فانی ہے جاناں لیکن رب سے
آپ کا جنت میں ساتھ مانگا ہے
کالا سوٹ بھی کسی کسی پے ججتا ہے
اور جس پہ جچتا ہے واللہ کیا کمال جچتا ہے
لوگ دیکھیں گے تو افسانہ بنا ڈالیں گے
یُوں میرے دل میں چلے آؤ کہ آہٹ بھی نہ ہو
آپ اس طرح تو ہُوش اُڑایا نہ کیجیے
یُوں بن سنور کے سامنے آیا نہ کیجیے
تم کو پانے کی تمنا میں گزاری ہوتی
ایک جان اور بھی ہوتی تو تمہاری ہوتی
وہ پھیر پھیر نگاہیں جو ہم کو دیکھیں گے
ہمارے دل نے مچلنا تو لامحالہ ہے
کھل جائے گا سُرور کا دروازہ خود بخود
تھوڑا سا رقص تھوڑا سا لہرانا شرط ہے
مجھے وظیفوں سے لایا گیا شہرِ محبت میں
ورنہ میں کسی کی باتوں میں آتی تو نہیں تھی
بس اِک چھوٹی سی ہاں کر دو
ہمارے نام اس طرح جہاں کردو وہ
محبتیں جو تمہارے دل میں ہیں
زباں پر لاؤ اور بیان کر دو
نہ چاہتے ہوئے بھی یہ عشق دیوانہ بنا دیتا ہے
خدا دل تو دیتا ہے لیکن دھڑکن کسی اور کو بنا دیتا ہے
ذرا سہ بیٹھا ابھی اور بات کر مجھ سے
حسین شخص میرا دل نہیں بھرا تجھ سے
جب یار میں اٹھا کر زلفوں کے بال باندھے
تب میں نے اپنے دل میں لاکھوں خیال باندھے
یہ دھکتی رگ ہے میاں یہ سوال مت پوچھو
ہم اہل ہجر سے لطف و وصال مت پوچھو
کہا نا ٹھیک ہوں ہاں ٹھیک ہوں کہا تو ہے
میں رو پڑوں گی میری جان حال مت پوچھو
آئینہ ہی دیکھتا ہے اسے آئینہ وہ کہاں دیکھتی ہے
اسے پتہ ہی نہیں تھا سلیقہ محبت کا
میں نے چاہ کر بتایا اسے ایسے چاہا کرتے ہیں
کوئی اس کا ہونے کا نہ سوچے
اس کے سنگ میں سجتی ہوں
تیرے سوا کسی کو دو پل نہ دوں
دل تو دور کی بات ہے جاناں
میں چاہوں تو خود کو ملکہِ وقت قرار دے دوں
مجھے اس جہاں میں ایک شخص ایسے چاہتا ہے
جس نے چھوڑی نہ کوئی ہم پہ ستم کی صورت
کیا ستم ہے کہ بغیر اس کے گزارا نہ ہوا
واللہ کیا کشش تھی کہ مت پوچھئے صاحب
مجھ سے مرا دل لڑ پڑا مجھے یہ شخص چاہیے
تیرا جِسم تو نہیں میری آرزو کی منزل
تیری روح تک رسائی میری روح چاہتی ہے
فریب دے مگر اب کے ذرا رعایت کر
ہمیں سوار نہ کر کاغذی سفینوں میں
اور تو کچھ بھی نہیں پاس ہمارے لیکن
تو رہے گا تو کسی شے کی ضرورت کیا ہے
کوئی تیرا برا چاہے کوئی تیرا برا سوچے
میں اتنی سی بات پہ تباہی نہ لا دوں
وہ میرے سحر سے نکلے گا تو مٹ جائے گا
میں نے تعویذِ عشق نگاہوں سے پلائے ہیں اسے
کل بچھڑنا ہے تو پھر عہدِ وفا سوچ کے باندھ
ابھی آغازِ محبت ہے گیا کچھ بھی نہیں
دل کرتا ہے چُرا لوں تجھے ہمیشہ کے لیے تقدیر سے
کیوں کہ اب دل نہیں بھرتا تمہاری تصویر سے
یہ عام لوگ مجھے کیسے جان پائیں گے
ابھی میں خاص نگاہوں پہ بھی کُھلی نہیں ہوں
قسم خدا کی محبت نہیں عقیدت ہے
دیار دل میں بڑا احترام ہے تیرا
میری آنکھوں میں کوئی کیسے جچے گا
نسبتِ یار نے مغرور بنا رکھا ہے
سُن کے چُوڑی فروش کی آواز
مجھے تیری کلائی بہت یاد آئی
مانگے جو کوئی مجھ سے تیرے نام کا صدقہ
میں خود کو پھینک دوں تیرے سر سے وار کر
دلِ مرحوم کو خدا بخشے بڑی رونق لگائے رکھتا تھا
ضائع نہ کر اپنے الفاظ ہر کسی کے لئے
خاموش رہ کے دیکھ تجھے سمجھتا کون ہے
اور کیا چاہتے ہو اس دل میں مقام اپنا
کہہ تو دیا ہے میری کل کائنات ہو تم
مجھے محبت ہے ان تمام حُروف سے
جو تمہارے نام میں آتے ہیں
یہ عاشقی ہے یہاں پر جُنون لازم ہے
سکون چاہیے جس کو وہ اعتکاف کرے
نادان ہیں وہ لوگ جو سمجھتے نہیں یہ بات
ہم کہاں عشق کے سوا کوئی کام کرتے ہیں
توڑیں گے غرور عشق کا اور اس طرح سدھر جائیں گے
محبت کھڑی ہوگی راستے میں ہم سامنے سے گزر جائیں گے
کیا حسین تیور تھے کیا لطیف لہجہ تھا
آرزو تھی حسرت تھی حکم تھا تقاضا تھا
اِک بار ہی ہوجائے ہوجائے جو ہونا ہے
اترو میں تیرے دل میں یا دل سے اتر جاؤ
سارا شہر چھوڑ کر پسند کیا ہے تجھے
مت کر قبول مگر داد تو دے انتخاب کی
آتشِ عشق لگ چُکی صاحب
پانی نہیں محبوب لے آؤ
عشق کے اظہار میں ہر چند رسوائی تو ہے
پر کروں کیا اب طبیعت آپ پر آئی تو ہے
میری عادتیں خراب کی تم نے
مجھ کو اپنی عادت ڈال کر
تمنا ہے میرے من کی ہر پل ساتھ تمہارا ہو
جتنی بھی چلیں سانسیں میری ہر سانس پہ نام تمہارا ہو
تیرے عشق سے جڑے ہیں کچھ اس طرح جاناں
جیتے تو دل گنوائیں ہاریں تو دل سے جائیں
یہ بھی ممکن ہے تجھے عشق ولایت دے دے
یہ بھی ممکن ہے تیرے ہوش ٹھکانے آجائیں
چلے آؤ ہماری محبت بھری شاعری کی محفل میں
ہم اتنی محبت دیں گے تم صدیوں یاد کرو گے
تم کیا جانو فراق کے طعنے
تمہیں تو چاہت یہاں وہاں سے بھی میسر ہے
آپ دولت کے ترازو میں دلوں کو تولیں
ہم محبت سے محبت کا صِلہ دیتے ہیں
ہنس کے فرماتے ہیں وہ دیکھ کے حالت میری
کیوں تم آسان سمجھتے تھے محبت میری
کسی سبب سے اگر بولتا نہیں ہوں میں
تو یوں نہیں کہ تجھے سوچتا نہیں ہوں میں