Syed Mohsin Naqvi was the son of Syed Chirag Hussain. Mohsin Naqvi was a famous Urdu poet from Pakistan. He belonged to Syed family. Mohsin Naqvi was born in Dera Ghazi Khan, Pakistan. Mohsin Naqvi was an active member of Shia Muslim community. He is thought to have survived an earlier attempt to oust him following Mr Jiang's intervention.
His name was Ghulam Abbas in his childhood which he later abbreviated as Syed Ghulam Abbas Mohsin Naqvi or Mohsin Naqvi.
Mohsin Naqvi published several books of poetry during his lifetime. Mohsin Naqvi obtained his master's degree in Urdu from Punjab University Lahore. Mohsin Naqvi was an ardent poet.
Mohsin Naqvi was assassinated on January 15, 1996 at his residence in Lahore. He was buried in his hometown of Dera Ghazi Khan.
Two Lines Poetry Of Mohsin Naqvi
mohsin naqvi |
mohsin naqvi |
mohsin naqvi |
mohsin naqvi |
mohsin naqvi |
mohsin naqvi |
mohsin naqvi |
mohsin naqvi |
mohsin naqvi poetry |
mohsin naqvi poetry |
mohsin naqvi poetry |
mohsin naqvi poetry |
mohsin naqvi poetry |
mohsin naqvi poetry |
mohsin naqvi poetry |
mohsin naqvi poetry |
mohsin naqvi poetry |
mohsin naqvi poetry in urdu |
mohsin naqvi poetry |
mohsin naqvi famous poetry |
یوں اداسی ہے میرے سر پر مسلسل محسن
جیسے دل پر کوئی زخموں کا نشاں رہتا ہے
Mohsin Naqvi Poetry In Urdu Text
وہ اکثر دن میں بچوں کو سلا دیتی ہے اس ڈر سے
گلی میں پھر کھلونے بیچنے والا نہ آجائے
وفا کی کون سی منزل پہ اس نے چھوڑا تھا
کہ وہ تو یاد ہمیں بھول کر بھی آتا ہے
صرف ہاتھوں کو نہ دیکھو کبھی آنکھیں بھی پڑھو
کچھ سوالی بڑے خوددار ہوا کرتے ہیں
جب سے اس نے شہر کو چھوڑا ہر رستہ سُن سان ہوا
اپنا کیا ہے سارے شہر کا اِک ہی جیسا نقصان ہوا
چنتی ہیں میرے اشک رتوں کی بھکارنیں
محسن لٹا رہا ہوں سرعام چاندنی
دشتِ ہستی میں شبِ غم کی سحر کرنے کو
ہجر والوں نے لیا رخت سفر سناٹا
پلٹ کے آ گئی خیمے کی سمت پیاس میری
پھٹے ہوئے تھے سبھی بادلوں کے مشکیزے
جو دے سکا نہ پہاڑوں کو برف کی چادر
وہ میری بانجھ زمیں کو کپاس کیا دے گا
کتنے لہجوں کے غلافوں میں چھپاؤں تجھ کو
شہر والے میرا موضوعِ سُخن جانتے ہیں
موسمِ زرد میں ایک دل کو بچاؤں کیسے
ایسی رُت میں تو گھنے پیڑ بھی جھڑ جاتے ہیں
ہم اپنی دھرتی سے اپنی ہر سمت خود تلاشیں
ہماری خاطر کوئی ستارہ نہیں چلے گا
وہ لمحہ بھر کی کہانی کہ عمر بھر میں کہی
ابھی تو خود سے تقاضے تھے اختصار کے بھی
کون سی بات ہے تم میں ایسی
اتنے اچھے کیوں لگتے ہو
کیوں تیرے درد کو دیں تہمت ویرانیِ دل
زلزلوں میں تو بھرے شہر اُجڑ جاتے ہیں
لوگو بھلا اس شہر میں کیسے جئیں گے ہم جہاں
ہو جرم تنہا سوچنا لیکن سزا آوارگی
جن اشکوں کی پھیکی لو کو ہم بے کار سمجھتے تھے
ان اشکوں سے کتنا روشن اِک تاریک مکان ہوا
جو اس کو دیکھتے رہنے میں کٹ گئیں محسن
وہ ساعتیں بھی محیطِ حواس کتنی تھیں
اپنے خوابوں کو اندھیروں کے حوالے کر کے
ہم نے صدقہ تیری آنکھوں کا اتارا محسن
ایک تو تھا جسے غربت میں پکارا دل نے
ورنہ بچھڑے ہوئے احباب تو سب یاد آئے
محسن دلِ غریب کی ویرانیاں تو دیکھ
کیسا نگر تھا جو تیرے ہاتھوں اُجڑ گیا
ورنہ یوں راس نہ آتے مجھے ویراں لمحے
سوچتا ہوں کہ تیرے غم میں کوئی بات تو ہے
اے بچھڑ کر نہ پلٹنے والے
تیرے رستے میں کھڑا ہے کوئی
وہ ایک دعا میری جو نامراد لوٹ آئی
زبان سے روٹھ گیا پھر سوال کا موسم
محسن مسرتوں کی طلب رائیگاں سمجھ
عالم کتابِ درد کا اِک باب ہی تو ہے
جو تیری زلف سے اترے ہوں مرے آنگن میں
چاندنی ایسے اندھیروں کا ادب کرتی ہے
بچھڑ کر تجھ سے کسی طور دِل بہل نہ سکا
نشانیاں بھی تیری میرے پاس کتنی تھیں
محسن وہ ڈھونڈتا تھا کسی پچھلی رات کو
آنکھیں ہوا کی زد میں تھی دامن تلے چراغ
کبھی وہ چاند جو پوچھے کہ شہر کیسا ہے
بُجھے بُجھے ہوئے لگتے ہیں بام و در کہنا
کتنے ظالم ہیں زندان کے نگہبان محسن
آنکھ لگتی ہے تو زنجیر ہلا دیتے ہیں
خزاں میں بھی تو مہکتی غزل پہن کے ملا
مزاجِ یار تیری خوش لباسیاں نہ گئیں
میں شامِ غریباں کی اداسی کا مسافر
صحراؤں میں جیسے کوئی جگنو تیری آواز
عدل ہر وقت محبت میں طلب کرتے ہو
اَب میں بِکھرا ہوں اٹھاتے نہیں حصہ اپنا
ابھی کچھ دیر میں محسن وہ پتھر ٹوٹ جائے گا
میں اس کی سرد مہری پر محبت مار آیا ہوں
بولے تو سہی جھوٹ ہی بولے وہ بلا سے
ظالم کا لب و لہجہ دل آویز بہت ہے
شام ہوتے ہی چراغوں کی طرح جلتی ہیں آنکھیں
کیا کوئی چلا جائے تو یوں ہوتا ہے محسن
سیاہ رات میں جلتے ہیں جگنو کی طرح
دلوں کے زخم بھی محسن کمال ہوتے ہیں
پاس رہ کر بھی ہمیشہ وہ بہت دور ملا
اس کا اندازِ تغافل تھا خداؤں جیسا
کچھ وقت کی روانی نے ہمیں یوں بدل دیا محسن
وفا پر اب بھی قائم ہیں مگر محبت چھوڑ دی ہم نے
کوئی تو حبس ہوا سے یہ پوچھتا محسن
ملا ھے کیا اسے کلیوں کو بے نمو کر کے
کئی رتوں سے میرے نیم وا دریچوں میں
ٹھہر گیا ہے ترے انتظار کا موسم
زمیں پہ رہ کے ستارے شکار کرتے ہیں
مزاج اہلِ محبت کا آسمانی ہے
تھام کر ہاتھ میرا ایسے وہ رویا محسن
کوئی کافر سے مسلمان ہوا ہو جیسے
وہ مجھ سے کہیں بڑھ کے مصیبت میں تھا محسن
رہ رہ کے مگر اس کا دلاسا مجھے دینا
ٹھٹھرتی ہوئی شبِ سیاہ اور وہ بھی طویل تر
محسن ہجر کے ماروں پہ قیامت ہے دسمبر
میں اپنے اشک سنبھالوں گا کب تلک محسن
زمانہ سنگ بکف ہے تو شیشہ گر آنکھیں
شاید میرا وجود ہی سورج تھا___ شہر میں
میں بُجھ گیا تو کتنے گھروں میں جلے چراغ
خوشبو کے جزیروں سے ستاروں کی حدوں تک
اس شہر میں سب کچھ ہے بس اِک تیری کمی ہے
اپنے دھوئیں کو چھوڑ گیا آسماں پر
بجھتے ہوئے دیے میں غرور انتہا کا تھا
تجھ کو احساس ہی کب ہے کہ کسی درد کا داغ
آنکھ سے دل میں اتر جائے تو کیا ہوتا ہے
وہ جن کے قہقہوں سے لرزتی تھی زندگی
کہتے ہیں ان کی آنکھ بڑی سوگوار تھی
صورت جن کی اجلی اجلی من تاریک سمندر ہو
ایسے پیارے یار سے محسن صحراؤں کے ناگ بھلے
اے بچھڑ کر نہ پلٹنے والے
تیرے رستے میں کھڑا ہے کوئی
وہ سلیقے سے ہوئے ہم سے گریزاں ورنہ
لوگ تو صاف محبت میں مُکرتے دیکھے
طلوعِ صبح سے پہلے ہی بُجھ نہ جائیں کہیں
یہ دشتِ شب میں ستاروں کی ہمسفر آنکھیں
اس وقت ہے تتلی کی طرح دوشِ ہوا پر
اس وقت کہاں بس میں ہمارے تیرا آنچل
اس کے اوصاف و خصائل نے مجھے جیت لیا محسن
میرے مریدوں میں تھا اک شخص پیروں جیسا
محسن وہ ساتھ لے گئے ہر منظرِ حیات
ٹوٹا ھوا سہ دل پسِ منظر پڑا ہے
پتھر ہو تو کیوں خوفِ شبِ غم سے ہو لرزاں
انساں ہو تو جینے کی ادا کیوں نہیں آتی
جائز تھی یا نہیں تیرے حق میں تھی مگر
کرتا تھا جو دل کبھی وہ وکالت تمام شُد
مڑ مڑ کے اسے دیکھنا چاہیں میری آنکھیں
کچھ دور مجھے چھوڑنے آیا تھا جو اِک شخص
اس کو محسن کی کیا ضرورت ہے
جس کے محسن ہزار ہو جائیں
آخرِ شب وہ کسی یاد کی آہستہ روی
جیسے رَگ رَگ میں اترتا چلا جائے کوئی
آنکھیں کھلی رہیں گی تو منظر بھی آئیں گے
زندہ ہے دل تو اور ستمگر بھی آئیں گے
وہ دل میں تبسم کی کِرن گھولنے والا
روٹھے تو رُتوں کو بھی سنورنے نہیں دیتا
اَب کیا کہیں یہ سنگدلی ہے کہ بے حسی
دل ہے غموں کی زد پہ مگر آنکھ نم نہیں
یہی کے سب کی کمانیں ہمی ٹوٹی ہیں
چلو حسابِ صفِ دوستاں تو پاک ہوا
عشق میں محسن کہاں کا جیتنا
ہارنے میں کامرانی اور ہے
کچھ حادثوں سے گر گئے محسن زمیں پر
ہم رشکِ آسماں تھے ابھی کل کی بات ہے
عجب نصیب تھا محسن کہ بعد مرگ مجھے
چراغ بن کر خود اپنی لحد پہ جلنا تھا
جانتا تھا کہ مجھے موت سکوں بخشے گی
وہ ستمگر تھا سو جینے کی دعا دی اس نے
اے محتسبِ شہر نہیں تجھ سے شکایت
ہم خود ہی دل و جاں کی تباہی کا سبب ہیں
ابھی منتشر نہ ہو اجنبی نہ وصال رُت کے کرم جتا
جو تیری تلاش میں گم ہوئے کبھی ان دنوں کا حساب کر
اجاڑ رُت کو گلابی بنائے رکھتی ھے
ھماری آنکھ تیری دید سے وضو کر کے
واسطہ حُسن سے کیا شدتِ جذبات سے کیا
عشق کو تیرے قبیلے یا میری ذات سے کیا
مٹ گئی حسرتِ دیدار بھی رفتہ رفتہ
ہجر میں حسرتِ دیدار کہاں تک جاتی
تو بہت دور بہت دور گیا تھا مجھ سے
میری آواز میرے یار کہاں تک جاتی
Mohsin Naqvi Islamic Poetry
کس نے مقتل کی زمیں چھو کہ معلیٰ کر دی
پوچھنا کربوبلا سے یہ ہنر کس کا ہے
تھا سفیرِ عشق تنہا جانثاری کے لیے
مسجدِ کوفہ میں تھے یوں تو نمازی بے بہا
محسن میں فقط خاکِ شفا پر نہیں نازاں
سجدوں کو مُیسر ہے درِ شاہِ نجف ع بھی
خوش ہو اے بلندیوں کی خواہش
میں نوکِ نیزہ پہ سج گیا ہوں
جس کو ڈوبا ہوا سورج بھی پلٹ کر دیکھے
ہم اُسے اپنے عقیدے میں علی علیہ السلام کہتے ہیں
کہا خدا نے شفاعت کی بات محشر میں
میرا حبیب کرے کوئی دوسرا نہ کرے
مدینے جا کے نکلنا نہ شہر سے باہر
خدانخواستہ یہ زندگی وفا نہ کرے
اِک درد کا میلہ کہ لگا ہے دل و جاں میں
اِک روح کی آواز کہ رستہ مجھے دینا
Mohsin Naqvi Ghazals In Urdu Font
ایک پل میں زندگی بھر کی اداسی دے گیا
وہ جدا ہوتے ہوئے کچھ پھول باسی دے گیا
نوچ کر شاخوں کے تن سے خشک پتوں کا لباس
زرد موسم بانجھ رُت کو بے لباسی دے گیا
صبح کے تارے میری پہلی دعا تیرے لیے
تو دل بے صبر کو تسکین ذرا سی دے گیا
لوگ ملبوں میں دبے سائے بھی دفنانے لگے
زلزلہ اہل زمیں کو بدحواسی دے گیا
تند جھونکے کی رگوں میں گھول کر اپنا دھواں
اِک دیا اندھی ہوا کو خود شناسی دے گیا
لے گیا محسن وہ مجھ سے ابر بنتا آسماں
اس کے بدلے میں زمیں صدیوں کی پیاسی دے گیا
بھڑکائیں میری پیاس کو اکثر تیری آنکھیں
صحرا میرا چہرہ ہے سمندر تیری آنکھیں
پھر کون بھلا داد تبسم انہیں دے گا
روئیں گی بہت مجھ سے بچھڑ کر تیری آنکھیں
خالی جو ہوئی شام غریباں کی ہتھیلی
کیا کیا نہ لٹاتی رہیں گوہر تیری آنکھیں
بوجھل نظر آتی ہیں بظاہر مجھے لیکن
کھلتی ہیں بہت دل میں اتر کر تیری آنکھیں
اب تک میری یادوں سے مٹائے نہیں مٹتا
بھیگی ہوئی اک شام کا منظر تیری آنکھیں
ممکن ہو تو اک تازہ غزل اور بھی کہہ لوں
پھر اوڑھ نہ لیں خواب کی چادر تیری آنکھیں
میں سنگ صفت ایک ہی رستے میں کھڑا ہوں
شاید مجھے دیکھیں گی پلٹ کر تیری آنکھیں
یوں دیکھتے رہنا اسے اچھا نہیں محسن
وہ کانچ کا پیکر ہے تو پتھر تیری آنکھیں
یہ دل یہ پاگل دل میرا کیوں بجھ گیا آوارگی
اس دشت میں اک شہر تھا وہ کیا ہوا آوارگی
کل شب مجھے بے شکل کی آواز نے چونکا دیا
میں نے کہا تو کون ہے اس نے کہا آوارگی
لوگو بھلا اس شہر میں کیسے جئیں گے ہم جہاں
ہو جرم تنہا سوچنا لیکن سزا آوارگی
یہ درد کی تنہائیاں یہ دشت کا ویراں سفر
ہم لوگ تو اکتا گئے اپنی سنا آوارگی
اک اجنبی جھونکے نے جب پوچھا میرے غم کا سبب صحرا کی بھیگی ریت پر میں نے لکھا آوارگی
اس سمت وحشی خواہشوں کی زد میں پیماںِ وفا
اس سمت لہروں کی دھمک کچا گھڑا آوارگی
کل رات تنہا چاند کو دیکھا تھا میں نے خواب میں
محسن مجھے راس آئے گی شاید سدا آوارگی
جب سے اس نے شہر کو چھوڑا ہر رستہ سنسان ہوا
اپنا کیا ہے سارے شہر کا اِک جیسا نقصان ہوا
یہ دل یہ آسیب کی نگری مسکن سوچوں وہموں کا
سوچ رھا ھوں اس نگری میں تو کب سے مہمان ھوا
صحرا کی منہ زور ہوائیں اوروں سے منسوب ہوئیں
مفت میں ھم آوارہ ٹھہرے مفت میں گھر ویران ہوا
میرے حال پہ حیرت کیسی درد کے تنہا موسم میں
پتھر بھی رو پڑتے ہیں انسان تو پھر انسان ہوا
اتنی دیر میں اجڑے دل پر کتنے محشر بیت گئے
جتنی دیر میں تجھ کو پا کر کھونے کا امکان ھوا
کل تک جس کے گرد تھا رقص اِک عام انبوہ ستاروں کا
آج اسی کو تنہا پا کر میں تو بہت حیران ہوا
اس کے زخم چھپا کر رکھیے خود اس شخص کی نظروں سے
اس سے کیسا شکوہ کیجئے وہ تو ابھی نادان ہوا
جن اشکوں کی پھکی لو کو ہم بے کار سمجھتے تھے
ان اشکوں سے کتنا روشن اِک تاریک مکان ہوا
یوں بھی کم آمیز تھا محسن وہ اس شہر کے لوگوں میں
لیکن میرے سامنے آ کر اور بھی کچھ انجان ھوا
کس نے سنگ خامشی پھینکا بھرے بازار پر
اک سکوتِ مرگ طاری ہے در و دیوار پر
تو نے اپنی زلف کے سائے میں افسانے کہے
مجھ کو زنجیریں ملی ہیں جراتِ اظہار پر
شاخِ عریاں پر کھلا اک پھول اس انداز سے
جس طرح تازہ لہو چمکے نئی تلوار پر
سنگ دل احباب کے دامن میں رسوائی کے پھول
میں نے دیکھا ہے نیا منظر فرازِ دار پر
اب کوئی تہمت بھی وجہِ کربِ رسوائی نہیں
زندگی اِک عمر سے چپ ہے ترے اصرار پر
میں سر مقتل حدیث زندگی کہتا رہا
انگلیاں اٹھتی رہیں محسن میرے کِردار پر