Qatil Poetry
qatil poetry |
عشق ابھی پیش ہوا ہی تھا انصاف کی عدالت میں
سب دل بول اٹھے یہ قاتل ہے یہ قاتل ہے یہ قاتل ہے
qatil poetry |
لوگ ڈرتے ہیں قاتل کی پرچھائی سے مرشد
ہم نے قاتل کے دل میں بھی گھر کر لیا
نگاہ قاتل ادا قاتل زباں قاتل بیاں قاتل
بتا قاتل کہاں جاؤں جہاں جاؤں وہاں قاتل
یوں نہ دیکھیے ان کا قاتل نظروں سے سرکار
دل پہلے ہی آپ پر قربان ہے
قتل کرنے کی ادا بھی حسیں قاتل بھی حسیں
نہ بھی مرنا ہو تو مر جانے کو جی چاہے گا
جان جب پیاری تھی تو دشمن ہزاروں تھے
اب مرنے کا شوق ہے قاتل نہیں ملتا
قتل ہوئے ہم اس طرح سے قسطوں میں
کبھی خنجر بدل گئے کبھی قاتل بدل گئے
اس کے تِل پے یوں بہکے بہکے سے تصورات تھے
میرے کیا یہ تِل ہے ہاں تِل ہے کیا تِل ہے قاتل ہے
Khuda k wasty is ko na toko
Yahi ik shahr me qatil rha hay
خدا کے واسطے اس کو نہ ٹوکو
یہی اِک شہر میں قاتل رہا ہے
Keh mery qatl k baad usne jafa se tauba
Haay us zud pashiman ka pashiman hona
کہ میرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ
ہاے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا
Mery hony me kesi taur se shamil ho jao
Tum masiha nahi hoty ho to qatil ho jao
میرے ہونے میں کسی طور سے شامل ہو جاؤ
تم مسیحا نہیں ہوتے ہو تو قاتل ہو جاؤ
Qatil ne kis safai se dhoi hay asteen
Usko khabar nahi k lahu bolta bhi hay
قاتل نے کس صفائی سے دھوئی ہے آستیں
اس کو خبر نہیں کہ لہو بولتا بھی ہے
Qatl ho to mera sa maut ho to meri si
Mery sogvaron me aaj mera qatil hay
قتل ہو تو میرا سا موت ہو تو میری سی
میرے سوگواروں میں آج میرا قاتل ہے
Yon na qatil ko jb yaqeen aaya
Ham ne dil khol kr dikhai choot
یوں نہ قاتل کو جب یقین آیا
ہم نے دل کھول کر دکھائی چوٹ
Ye sach hay chand lamhon k liye bismil tadapta hay
Phir is k baad saari zindagi qatil tadapta hay
یہ سچ ہے چند لمحوں کے لئے بسمل تڑپتا ہے
پھر اس کے بعد ساری زندگی قاتل تڑپتا ہے
Shahr k aain me ye mad bhi likhi jaegi
Zinda rahna hay to qatil ki sifarish chahiye
شہر کے آئین میں یہ مدَ بھی لکھی جائے گی
زندہ رہنا ہے تو قاتل کی سفارش چاہیے
قاتل ہے کون اس کا مجھے کچھ پتہ نہیں
میں پھنس گیا ہوں لاش سے خنجر نکال کر
اپنے من چاہے انسان کی کمی
تمام راحتوں کی قاتل ہوتی ہے
تمہیں آہ لگے گی محترمہ
تم میری مسکراہٹ کی قاتل ہو
کمسنی کا حسن تھا وہ یہ جوانی کی بہار
تھا یہی تِل پہلے بھی رُخ پر مگر قاتل نہ تھا
قاتل نے خنجر سے خود کفیل مارے
حاکم نے لفظوں سے لواحقین مارے
میری میت کو رکھ کے چھاؤں میں
میرا قاتل سراغ چھوڑ گیا
حسن تیرا بھی قاتل ہوگا لیکن
مسکراہٹ ہم بھی کمال رکھتے ہیں