Sagar Poetry
![]() |
sagar poetry |
یہ حُسن یہ ناز و ادا یہ سادگی ان آنکھوں کی
واللہ غضب کر رہی ساگر آوارگی اُن آنکھوں کی
![]() |
sagar poetry |
ہم نے جو پوچھا ساگر انداز محبت ہے کیسے
کھینچ کرہونٹ سے ہونٹ ملا دیے اور کہا ایسے
![]() |
sagar poetry |
سلسلہ فجر تک جا پہنچا اذانِ عشاء سے اے ساگر
ہم خیالِ یار میں بیٹھے وضو ہی کرتے رہے
![]() |
sagar poetry |
قصہ محبت اب ہم سے نہ پوچھو ساگر
ہم محبت کی دنیا سے وفات پا چُکے ہیں
دنیا کا دستور ہی ایسا ہے ساگر
ساتھ وہاں تک مطلب جہاں تک
اب دوستی کر لی ہے تنہائی سے ساگر
اگر کوئی چھوڑ جائے گا تو غم نہیں
تمہارے ابُرو کی ایک جنبش نے ساگر کے رُخ کو موڑا
تمہاری خفگی نے جانِ راہب شرارےِ آتش فشاں کیے ہیں
دن تو کٹ جاتا ہے شہر کی رونق میں ساگر
کچھ لوگ بہت یاد آتے ہیں شام ڈھل جانے کے بعد
دنیا تو سدا رہے گی ساگر
ہم لوگ ہیں یادگار کچھ دیر
ساگر کی بانہوں میں موجیں ہیں جتنی
ھم کو بھی تم سے محبت ہے اُتنی
مسکراہٹ تو دیکھیئے ہمارے چہرے کی ساگر
ہم دُکھ بھی کیسی ادا سے چُھپاتے ہیں
آپ نے دیکھے ہیں صرف مُسکراتے ہوئے چہرے ساگر
ان کے پیچھے جو درد چُھپے ہیں وہ آپ سے دیکھے نہیں جائیں گے
مُسکرانے کے زمانے گُزر گئے ساگر
اِک شخص دفنا گیا میرے شوق بھی میرے ذوق بھی
وہ مل جائے مجھے تو یوں سمجھو گی ساگر
جنت کا اعلان ہو کسی گناہ گار کے لیے
یہ سنگیں حصاروں کی اونچی فصلیںیہ دریا یہ ساگر یہ صحرا یہ جھیلیںیہی ہے نشیمن یہی آشیانےعقابوں کے مسکن ہمارے ٹھکانے۔
تمہارا خط ملا جاناںوہ جس میں تم نے پوچھا ہےکہ اب حالات کیسے ہیںمیرے دن رات کیسے ہیںمہربانی تمہاری ہےکہ تم نے اس طرح مجھ سےمیرے حالات پوچھے ہیںتمہیں سب کچھ بتا دوں گامجھے اتنا تو بتا دوکہ کبھی ساگر کے کنارے پرکسی مچھلی کو دیکھا ہےکہ جس کو لہریں پانی کیکنارے تک تو لاتی ہیںمگر پھر چھوڑ جاتی ہیںمیرے حالات ایسے ہیںمیرے دن رات ایسے ہیں۔
وہ صبح کبھی تو آئے گیان کالی صدیوں کے سر سےجب رات کا آنچل ڈھلکے گاجب دُکھ کے بادل پگھلیں گےجب سُکھ کا ساگر چھلکے گاجب امبَر جُھوم کے ناچے گاجب دھرتی نغمے گائے گیوہ صبح کبھی تو آئے گی۔