Parinde Ki Faryad Poem
Parinde ki faryad poem |
آتا ھے یاد مجھ کو وہ گزرا ہوا زمانہ
وہ باغ کی بہاریں وہ چڑیوں کا چہچہانا
آزادیاں کہاں اب وہ اپنے گھونسے کی
اپنی خوشی سے آنا اپنی خوشی سے جانا
لگتی ہے چوٹ دل پر آتا ہے یاد جس دم
شبنم کے آنسوئوں پر کلیوں کا مسکرانا
وہ پیاری پیاری صورت وہ کامنی سی مورت
آباد جس کے دم سے تھا میرا آشیانہ
آتی نہیں صدائیں اس کی مرے قفس میں
ہوتی مری رہائی اے کاش میرے بس میں
کیا بد نصیب ہوں میں گھر کو ترس رہا ہوں
ساتھی تو ہیں وطن میں،میں قید میں پڑا ھوں
آئی بہار کلیاں پھولوں کی ہنس رہی ھیں
میں اس اندھیرے گھر مین قسمت کو رو رہا ہوں
اس قید کا الٰہی دکھڑا کسے سنائوں
ڈر ہے یہیں قفس میں_میں غم سے مر نہ جاوں
جب سے چمن چھٹا ہے یہ حال ہو گیا ھے
دل غم کو کھا رہا ہے، غم دل کو کھا رہا ھے
گانا اسے سمجھ کر خوش ہوں نہ سننے والے
دکھے ہوئے دلوں کی فریاد یہ صدا ھے
آزاد مجھ کو کر دے او قید کرنے والے
میں بے زباں ہوں قیدی تو چھوڑ کر دعا لے