2 Line Shero Shayari In Urdu

shero shayari, shero shayari urdu, 2 line shayari, urdu shero shayari, shero shayari love, sad shero shayari urdu sms, love shero shayari, shero shaya
Kawish Poetry

 Shero Shayari


Read a best collection of shero shayari in urdu, 2 line shayari images share popular poet Facebook, Instagram and Twitter & social media etc...


shero shayari


Wo mujhse bichada to jaise bichhad gai zindagi

Main zinda to raha per zindon main na raha


وہ مجھ سے بچھڑا تو جیسے بچھڑ گئی زندگی

میں زندہ تو رہا ___ پر زندوں میں نہ رہا



Phir palat rahi hain sardiyon ki sohani shamin

Phir uski yaad mei jalne k zamany aay


پھر پلٹ رہی ہیں سردیوں کی سہانی شامیں

پھر اس کی یاد میں __ جلنے کے زمانے آئے



Na kabhi awaaz dena na kabhi palat kar dekhna

Badi mushkil se sekha hay kesi alvida kahna


نہ کبھی آواز دینا نہ کبھی پلٹ کر دیکھنا

بڑی مُشکل سے سیکھا ھے کسی کو الوداع کہنا



مُسکراہٹ تو اِک نمائش ھے

یہ نمائش دلیلِ حال تو نہیں



سفرِ حیات میں اختتام لازم ھے

طلبِ منزل تیری رضا ہے یا رب



تیرے غرور کو دیکھ کر تیری تمنا ہی چھوڑ دی ہم نے

ذرا ہم بھی دیکھیں کون چاہتا ہے تمہیں ہماری طرح



کمال کرتے ہیں ہم سے جلنے والے دشمن بھی

محفل اپنی سجاتے ہیں اور ذکر ھمارا کرتے ھیں



تمہاری مسکراہٹ سے سدھر جاتی ہے طبیعت میری

____ بتاؤ نہ تم عشق کرتے ہو __ یا علاج



خود کو خود ہی سنبھال کر چلیں

جگہ جگہ گری ہے لوگوں کی سوچ



رکھ کر تیرے عشق کا روزہ میری جان

ہم بھی کبھی کھولیں گے تیرے دِیدار سے



کہیں اب ملاقات ہو جائے ہم سے

بچا کر نظر کو گزر جائیے گا___



تجھ سے بچھڑا ہوں تو رویا ہوں ورنہ

رونے والوں کو میں فنکار کہا کرتا تھا



ایک ہی بندے کی تو بات ہے مولا

پوری کائنات کس نے مانگی ہے



کہاں کہاں نہیں احساس تیرے ہونے کا

میں کیا بتاؤں کمی ہے کہاں کہاں تیری



عجب بھول بھلیاں تھیں اس کا ہونا بھی

ہر اِک شے میں وہی تھا مگر نہیں تھا وہ



ہر کسی سے بچھڑنا پڑتا تھا

اب میں اپنے ہی ساتھ رہتا ہوں



ذرا آہستہ آہستہ برباد کر آئے عشق

بڑے نازوں سے پالا ہے میری ماں نے مجھ کو



میرا غم ہے - غمِ مبتلا - میں جیا مگر میں جیا نہیں

تیرا غم ہے تیری ندامتیں تو جیا مگر تو مرا نہیں



دوست کہتے ہیں بھول جاؤ اسے

_____کتنا آسان ہے مشورہ دینا



میں بہت جلد زمانے سے بچھڑ جاؤں گا

آئے مجھ کو کہیں بیٹھ کر رو لیتے ہیں



آیا تھا میکدے میں بڑی دھوم دھام سے

کمبخت چار گھوٹ ہی پی کر بہک گیا



ایک امید سے دل بہلتا رہا

اِک تمنا ستاتی رہی رات بھر



سیرتوں کا حسن کیا جانیں

صورتوں کے بھکاری لوگ



جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے

یہ عبرت کی جا ہے تماشا نہیں ہے



تیسرا میں ہی تھا مثلث میں

میں سمجھتا تھا دوسرا ہوں میں



سب سے دلچسپ یہی غم ہے میری بستی کا

موت پسماندہ علاقے میں دوا لگتی ہے



دوستی سمیٹ لیتی ہے زمانے بھر کے رنج و غم

سنا ہے یار اچھے ہوں تو کانٹے بھی نہیں چھبتے



تیری سوچ کا محور سمجھ نہ پایا مرشد

میں نے تراشا خود کو ہر طرح سے



میں نے تم کو پانے کی بھرپور کوششیں کروں گا

کے ایسے کام _____ مُقدر پہ کون چھوڑتا ہے



بس ایک بات ہی پوچھی بچھڑنے والے نے

کبھی کہیں پے ملے تو ___ سلام ہو گا نا



پرچھائیوں کے شہر کی تنہائیاں نا پوچھ

اپنا شریکِ غم کوئی اپنے سوا نہ تھا



تم سمجھتے ہو تمہارا ہی غم معتبر ہے

تو نے دیکھا ہی کہاں ہے مجھے شام کے بعد



یہ مت سمجھ تیرے قابل نہیں ہیں ہم

تڑپ رہے ہیں وہ جنہیں حاصل نہیں ہیں ہم



منزل تیری تلاش میں گھومے گی دربدر

خلق خدا کی راہ سے کانٹے ہٹا کے دیکھ



صدیاں گزر گئی تیرے انتظار میں

اے مرگِ ناگہاں میری طاقت تمام شُد



تیرا ہی پوچھتے رہتے ہیں باتوں باتوں میں

ملا ہے جب بھی کوئی شخص تیرے گاؤں کا



آؤ آنکھیں ملا کے دیکھتے ہیں

کون کتنا اداس رہتا ہے___۔۔۔



بہت مہنگی پڑتی ہے وہ محبت

جہاں خود کو سستا کردیا جائے



وہ اپنی آنکھوں میں میری بربادی کا منظر لائے تھے

جنہیں میں سمجھ رہا تھا اپنا مسیحا

وہی میرے لئے خنجر لے آئے تھے



کسی نہ کسی کو تو اس شخص کو سمجھانا چاہئے تھا

مجھ پہ پیار نہ سہی اسے ترس تو آنا چاہیے تھا



کسی کے خواب تو ہوں گے میرے جیسے

___کوئی تو مجھ سا سوچتا ہوگا____



لفظوں نے ضرور کہا تھا الوداع

مگر میرے لہجے نے ہاتھ جوڑے تھے



ہماری اپنی محفل اپنا انداز اپنی شہرت

جاو محترم اپنے چرچے کہیں اور سناؤ



کیسے بُھولوں میں وہ آواز جسے سُنتے ھی

بُھوک مٹتی تھی سماعت کو سُکُوں ملتا تھا



پاؤں پھیلائے تو پھر دیکھی نہ چادر ہم نے 

تم کو چاہا تو پھر اوقات سے بڑھ کر چاہا



غنیمت ھے چشمِ تغافل بھی ان کی

بہت دیکھے ھیں جوکم دیکھتے ھیں



خواہشیں راکھ کر دیتی ھوں میں

مجھ سے پاؤں نہیں پکڑے جاتے



‏تمہیں بس لاکھ تک آتی ہے گنتی 

ھائے کروڑوں خامیاں ھیں مجھ میں



انتظارِ   یار   بھی   لُطف  کمال  ھے

آنکھیں کتاب پر اور سوچیں جناب پر



ایک پتھر کی بھی تقدیر سنور سکتی ھے

شرط یہ ھے کے سلیقے سے تراشا جائے



تمسخر اُڑایا گیا ھے کالی رنگت کا زریں سرِمحفل

غلافِ کعبہ سے اُلفت رکھنے والوں کو یہ زیب تو نہیں دیتا



مرنےکو _ تو ہم مرجائیں _ مگر شرط ہے _ ایک

تم سامنے بیٹھ کر سانسوں کا تسلسل ٹوٹتا دیکھو



رفاقتوں کے نئے خواب خوش نما ھیں مگر

گزر چکا ھے ______ تیرے اعتبار کا موسم



شاعری اثاثہ ھے چند با ذوق لوگوں کا

بانس کی ہر ٹہنی بانسری نہیں بنتی



ہم نے کیسے کیا تمہیں رخصت

یہ بڑے حوصلے کی باتیں ہیں



جس کے لفظوں میں اپنا عکس ملتا ھے

بڑے نصیب سے ایسا کوئی شخص مِلتا ھے



خریدنا ہوتا تمہیں تو اپنی زندگی بیچ کر خرید لیتے مرشد

مگر کچھ لوگ قیمت سے نہیں قسمت سے ملا کرتے ہیں



متاعِ زیست ھے جاناں یہی غربت یہی دولت

کبھی کاسہ تیرا لہجہ کبھی بخشش تیری باتیں



‏وجود کی بساط پر بڑی عجیب مات تھی

یقین لٹا کے چل پڑے گماں بچا کے رکھ لیا



ﮨﻤﺎﺭﮮ ﮐﻬﻠﻨﮯ ﺍﻭﺭ ﺟﻬﮍﻧﮯ ﮐﮯ ﺩﻥ ﺍِﮎ ﺳﺎﺗﮫ ﺁﺋﮯ ھیں

ﮨﻤﯿﮟ ﺩﯾﻤﮏ ﻧﮯ ﭼﺎﭨﺎ ھے ﺷﺠﺮ ﮐﺎﺭﯼ ﮐﮯ ﻣﻮﺳﻢ ﻣﯿﮟ



کبھی خود کو تسبیح سہ پھیر دوں

کبھی  تجھ  کو  وردِ  زباں  کروں



چاند بصورت دیگر تو ہو سکتا ھے لیکن

تیرا  نعم  البدل  فلحال  بنایا  نہیں  گیا



ﮐﻮﻥ ﮐﺮﺗﺎ ہﮯ ﺗﺎﺣﯿﺎﺕ ﭼﺎﮨﺖ ﻣﯿﺮﮮ ﺣﻀﻮﺭ

ﮐﺐ ﻣﻠﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺟﮩﺎﮞ ﻣﯿﮟ ﺯُﻟﯿﺨﺎ ﻣﺰﺍﺝ ﻟﻮﮒ



آفت کی تاک جھانک قیامت کی شوخیاں

پھر چاہتے ہو ہم سے کوئی بَد گُماں نہ ھو



‏وقت کے ہاتھ سے گِرکر ہوئی ریزہ ریزہ

زندگی بکھری کچھ ایسی کے سمیٹی نہ گئی



چھوٹی   عمر   میں   ھی   دل   لگا   بیٹھے   ہم

ہمیں کیا پتا تھا نشہ شراب کا نہیں یار کا بھی ہوتا ھے



کیجیئے اپنی نگاہوں کو اِک چہرے پر پابند غالب

ھر  صورت  پر  لٹ  جانا  توہینِ  وفا  ہوتی  ھے



مجھ کو فرصت ہی کہاں موسم سہانے دیکھوں

میں  تیری  ذات  سے  نکلوں  تو  زمانے  دیکھوں



مجھے قبول یہ بھی نہیں ____- کہ تجھے آئینہ دیکھے

بس تجھے اِک میں دیکھوں اور دوسرا میراخدا دیکھے



بڑی طلب ہے تیرے دیدار کی میری بےچین نگاہوں کو

کسی شام چلے آؤ ان آنکھوں میں رات کا خواب بن کر



میرے لفظوں سے نکل جائے اثر

کوئی خواہش جو تیرے بعد کروں



ہر مُصیبت کا دیا اِک تبسم سے جواب

اِس طرح گردشِ دوراں کو رُلایا میں نے



دائم آباد رہے گی یہ دنیا

ہم نہ ہون گے تو کوئی ہم سہ ہو گا



نہیں نہیں یہ خبر دشمنوں نے دی ہوگی

وہ آئے آ کے چلے بھی گئے ملے بھی نہیں



میری بینائی تیرے قُرب کی مـرہُون ہے مرشد

ہاتھ چُھڑوا کے بھلا تُجھ سے کِدھـر جانا ھے



‏جب آجاتی ھے دنیا گھوم کر اپنے مرکز پر

تو پھر واپس گُزرے زمانے کیوں نہیں آتے



فاصلے بڑھے تو غلط فہمیاں بھی بڑھ گئیں

پھر اس نے وہ بھی سوچا جو تھا ھی نہیں



تیرا عشق مجھے اس حال میں لے آیا

نہ میرا تن اپنا  ____ نہ میرا من اپنا



کبھی تو آؤ پلٹ کر میرے خیالوں میں

 نہیں لگتا تیرے بن یہ دل زمانوں میں



زہر   لہجوں   میں   آ   گیا

سانپ جنگلوں میں جا بسے



تیرے دیدار کے لمحے بہت قیمتی تھے

ہم اگر آنکھ جھپکتے تو خسارہ کرتے



شہر والوں کی محبت کا میں قائل ہوں مگر​

میں نے جس ہاتھ کو چوما وہی خنجر نکلا



کچھ   اور   نہیں   وعدہ   تعبیر   کے   بدلے

ہم خواب فروشوں سے کوئی خواب خریدے



پرندوں کی فطرت سے آئے تھے وہ میرے دل میں

ذرا سے پنکھ نکل آٰئے تو آشیانہ ہی چھوڑ دیا



سنا ہے بہت ‏‎ ‎دور دور سے آتے ہیں لوگ دیدار کیلیے مرشد

سجا ہوتا ھے جب انسان سفید جوڑے میں‎



میں نے کھویا ہے خود کو فقط یہ جاننےکیلیے کہ

کون رویا میری خاطر کس نے کہا کے جان چھوٹی



ایسی تصویر بنا روتے ہوئے خوش بھی لگوں 

غم کی ترسیل تو ہو غم کا تماشہ نہ بنے



بیٹھ جاتا ہوں خاک پر اکثر

اپنی اوقات اچھی لگتی ہے



اتنے چُپ چاپ کے رستے بھی رہیں گے لاعلم 

چھوڑ جائیں گے کسی روز شہر _شام کے بعد

           


جنونِ عشق میں حدِ انتہا کو کیا سمجھوں

جزا سمجھوں سزا سمجھوں تو ھی بتا کیا سمجھوں



مجھ سے ممکن ہی نہیں یار یہ نفرت

میں محبت ہوں محبت ھی صدا بانٹوں گی



لُٹا کر ہر چیز منزلِ عشق کی تلاش میں

میں ہنس پڑتا ھوں خود کو ناکام دیکھ کر



مت پوچھنا کے درد کس کس نے دیا

ورنہ کچھ اپنوں کے سر بھی جھک جائیں گے



درد تو وہ سمجھتے ھیں

جن کے پاس دل ہوتا ھے



درد دینے کا تجھے بھی شوق تھا بہت

اور پھر دیکھ ھم نے بھی سہنے کی انتہا کر دی



حرفِ تسلی تو میری جان اِک تکلف ھے

جس کا درد اسی کا درد باقی سب تماشا ھے



جو دل کے سارے درد بانٹ لے

ایسے دوست زندگی میں بہت کم ملتے ھیں



تیرے جانے کے بعد لوگوں نے

ہنس ہنس کے اذیت دی مجھے



اپنے   چہرے   پر کوئی   درد   تحریر   نہ   کرو

وقت کے پاس نہ آنکھیں ہیں نہ احساس ہے نہ دل



ہم یوں ہی چلے جائیں گے

سب کو ہنساتے ہنساتے



چھوڑ کر نہیں توڑ کر گیا ھے وہ

اور پھر کہتا ھے اپنا خیال رکھنا