زندگی خاک نہ تھی خاک اُڑاتے گزری
تجھ سے کیا کہتے تیرے پاس جو آتے گزری
دن جو گزرا تو کسی یاد کی رَو میں گزرا
شام آئی تو کوئی خواب دکھاتے گزری
اچھے وقتوں کی تمنا میں رہی عمرِ رواں
وقت ایسا تھا کہ بس ناز اُٹھاتے گزری
زندگی جس کے مُقدر میں ہو خوشیوں تیری
اُس کو آتا ھے نبھانا، سو نبھاتے گزری
زندگی نام اُدھر ھے، کسی سرشاری کا
اور اِدھر دُور سے اِک آس لگاتے گزری
رات کیا آئی کہ تنہائی کی سرگوشی میں
ہُو کا عالم تھا ، مگر سُنتے سناتے گزری
بار ہا چونک سی جاتی ھے مسافت دل کی
کس کی آواز تھی ، یہ کس کو بلاتے گزری
نصیر ترابی