Naraz Poetry In Urdu | Narazgi Poetry

naraz poetry, narazgi poetry, naraz poetry in urdu, naraz poetry 2 lines, naraz poetry pics, naraz poetry images, narazgi poetry in urdu, naraz poetry
Kawish Poetry

 Naraz Poetry




تجھ سے نہیں تیرے وقت سے ناراض ہوں naraz poetry

naraz poetry
naraz poetry


تجھ سے نہیں تیرے وقت سے ناراض ہوں
جو کبھی بھی تجھے میرے لیے نہیں ملتا


naraz poetry
naraz poetry


کیوں ناراض رہتے ہو میری نادان سی حرکتوں سے
کچھ دن کی زندگی ہے پھر چلے جائیں گے ہمیشہ کے لئے


naraz poetry
naraz poetry


پتا نہیں کتنا ناراض ہے وہ مجھ سے
خوابوں میں بھی ملتا ہے تو بات نہیں کرتا


naraz poetry
naraz poetry


ہم ناراض سمجھتے رہے وہ بے بیزار تھے


narazgi poetry
narazgi poetry


منایا نہیں گیا مجھ سے اس بار
 اس کی ناراضگی میں آباد کوئی اور تھا


تم ناراض ناراض سے لگتے ہو کوئی ترکیب بتاؤ منانے کی
ہم زندگی امانت رکھ دیں گے تم قیمت بتاؤ مُسکرانے کی



اور ناراض ہمیشہ خوشیاں ہی ہوتی ہیں
غموں کے اتنے نخرے نہیں ہوتے   




میرے چپ رہنے سے ناراض نہ ہوا کرو
دراصل خوبصورت لوگ کم بولتے ہیں



اسے میری آواز سے ناراضگی کا پتہ چلتا تھا
اسے میرا اب چیخ چیخ کے رُونا کیوں نہیں سنائی دیتا




محبت میں ناراضگی نہیں ہوتی ناراضگی کے نام پر لاڈ ہوتے ہیں
لاڈ پورے ہو جائیں تو مان بڑھ جاتا ہے اور محبت بھی



یہ رات آخری ہوئی تو کیا کروگے
ہم ہی نہ رہے تو اس ناراضگی کا کیا کروگے




تمہاری ناراضگی کے ڈر سے میں جو ہر بات مان لیتا ہوں
کبھی تم کو محبوب سمجھ کر کبھی خود کو مجبور سمجھ کر




تم بھول ہی نہ پاؤ گے ہمارے پیار کو زندگی بھر
کیوں کہ ہماری محبت میں ناراضگی تو ضرور ہوگی پر بے وفائی نہیں




ایسا لگتا ہے ناراضگی باقی ہے ابھی
ہاتھ تھاما ہے مگر دبایا نہیں اس نے



ناراضگی ہے کوئی دل میں تو کھل کر گِلہ کرو
میں ایسا شخص ہوں کہ پھر بھی ہنس کر ملوں گا



جنہیں احساس نہ ہو ان سے ناراضگی کیسی




ناراضگی میں کچھ بھی نہیں رکھا صاحب
محبت سے جینا سیکھو
یہ جو دنیا ہے نہ میرا ٹھکانہ ہے نہ ہی تیرا گھر ہے





ناراضگی اور بےزاری دو الگ پہلو ہیں کسی کو منانے سے پہلے یہ ضرور دیکھ لیا کریں کہ وہ ناراض ہے یا بیزار



وہ تو ناراض ہو کر بھی ساتھ نہیں چھوڑتا
اللہ کی تو ناراضگی بھی اتنی پیاری ہے



اب تجھ سے نہیں ناراضگی کوئی
دیکھ کس قدر ناراض ہوں میں



ہم ناراض ہو کر بھی ناراض نہیں ہوتے تم سے
ایسی ہے محبت میرے دل میں تیرے لیے  لیے




میرے اندر ایک ناراض لڑکی
میری ہر پیشکش ٹُھکرا رہی ہے



اتنا بھی ہم سے ناراض مت ہوا کرو مُرشد
بدقسمت ضرور ہیں ہم مگر بے وفا نہیں




ہر شخص کو راضی رکھنا چمچوں اور منافقوں کا کام ہوتا ہے
باضمیر اور بااصول لوگوں سے اکثر لوگ ناراض ہی ہوتے ہیں           




یہ حادثہ ہے کہ ناراض ہو گیا سورج
میں رُو رہا تھا لپٹ کر خود اپنے سائے سے




ناراض ہو کر بھی ناراض نہیں ہوتے
ایسی محبت کرتے ہیں تم سے 



ماں مجھے دیکھ کر نہ ناراض ہو جائے کہیں
سر پہ آنچل نہیں ہوتا ہے تو ڈر لگتا ہے



تم سے روٹھ کر تم ہی کو سوچتا ہوں
مجھے تو ٹھیک سے ناراض ھونا بھی نھیں آتا



یہ دن یونہی گزر جائیں گے
شاید ہم دوست یونہی بچھڑ جائیں گے

ناراض مت ہونا ہماری شرارتوں سے
یہی وہ پَل ہیں جو اکثر یاد آئیں گے




اداس ہوں پر تجھ سے ناراض نہیں
تیرے دل میں ہوں پر تیرے پاس نہیں

جھوٹ کہوں تو سب کچھ ہے میرے پاس
اور سچ کہوں تو اِک تیرے سوا کچھ بھی خاص نہیں




سکوت لہجہ ادُھوری آنکھیں جمود سوچیں تیرا تصور
الفاظ بکھرے مزاج مدھم ناراض موجیں تیرا تصور

جوان رنجش و درد تازہ ادھار سانسیں جُھلستا آنگن
ویران دامن اجاڑ پہلو وہ تیری کھو جے تیرا تصور

سوال عادت جواب حکمت علاج درشن مریض عُجلت
جمالِ مقصود حسن مفقُود نِگاہیں پوچھیں تیرا تصور

اصنام پتھر قُلوب پتھر انائیں پتھر انسان پتھر
سکُون دلبر نرم کلامی گُداز سوچیں تیرا تصور

زوال دُوری کمال جینا مُحال سہنا وبال کہنا
وہ تلخ لمحے زہر لہو میں تریاق چاہیں تیرا تصور
 





سنو کبھی ناراض مت ہونا
گلے چاہے بہت کرنا
رُولانا اور بہت لڑنا
پر کبھی ناراض مت ہونا
کبھی ایسا جو ہوجائے
تیری یاد سے غافل
جو کسی لمحے میں ہو جاؤں
بنا دیکھے تیری صورت
کسی شب میں جو سو جاؤں
تو سپنوں میں چلے آنا
مجھے احساس دلا جانا
مگر ناراض مت ہونا
کبھی ایسا جو ہوجائے
جنہیں کہنا ضروری ہو
وہ مجھ سے لفظ کھو جائیں
انا کو بیچ میں مت لانا
میری آواز بن جانا
مگر کبھی ناراض مت ہونا






وہ انا پرست تھا اسکی باتوں میں اقرار بھی تھا
اس کے چُبھتے ہوئے لہجے میں چُھپا پیار بھی تھا

وہ مجھے لکھتا تھا کے منتظر نہ رہو
لیکن اسکی تحریر میں صدیوں کا انتظار بھی تھا

وہ کہتا تھا کہ روٹھو کے منانا نہیں آتا
میری ناراضگی پر لیکن وہ بے قرار بھی تھا

میں شاید پھرنہ لکھتا اسکو اپنی خبر
محبت کا بھرم رکھنا تھا کچھ دل بے اختیار بھی تھا

شاید یہی اسکا انداز محبت ہو
وہ میرا ہمدم تھا ستم گزار بھی تھا