Sad Shayari In Urdu Sms 2 Lines
چلا میں روٹھ کر آواز تک نہ دی اس نے
میں دل میں چیخ کر کہتا رہا پکار مجھے
میں کہاں سے لاؤں _____ بتا بکتا کہاں ہے
وہ نصیب جو تجھے عمر بھر کے لیے میرا کر دے
بارش ہوئی تو گاؤں میں سروس چلی گئی
مدت کے بعد اس نے اٹھایا تھا فون دوست
جہاں پہ لگے تمہیں کہ نیند چِھن رہی ہے سکون کھو رہا ہے
وہیں پر عشق نامراد کا صدقہ اتار دینا ہاتھ چھوڑ دینا
جس کی جیسی نیت ویسی کہانی رکھتا ہے
کوئی پرندوں کے لیے بندوق تو کوئی پانی رکھتا ہے
کبھی توڑا کبھی جوڑا کبھی جوڑ کے پھر توڑا
نا کارا کر دیا ہے دل کو تیری اس پیوندکاری نے
میں بیزار ہو گیا ہوں جینے سے سانس لینے سے
بہت بھیڑ تھی ان کے دل میں
اگر خود نہ نکلتے تو نکال دیے جاتے
دن کے ہنگاموں کو کیجئے دل کے سناٹے میں غرق
رات کی خاموشیوں کو وقف ماتم کیجئے
آخری نیند خوب سوئینگے در پہ دستک کا ڈر نہیں ہوگا
ستم ہی ایک رشتہ ہے ہمارے درمیاں جاناں
نہ تم کرنے سے باز آؤ نہ ہم سہنے سے باز آئیں
دل کے کسی کونے میں وہ بستا آج بھی ہے
تصویر دھندلی ہے مگر یاد آج بھی ہے
کال کر کے پوچھا اس نے کہ تم کون
ہم نے زندگی کے نام سے ان کا نمبر سیو کیا ہے
عشق میں دو کا عدد اخری ہوتا ہے
تین کی جلن آپ نہیں سمجھیں گے
رات ہوتی ہے تو اِک شخص میرے چہرے پر
اپنے حصے کی اداسی بھی چھڑک جاتا ہے
یہ بھی اس کا اپنا طریقہ ہے دان کرنے کا
وہ جس سے شرط لگاتا ہے ہار جاتا ہے
خود خوشی کا عمل حرام ہے یا رب مگر
وہ کیا کرے جسے مجبور کر دیا جائے
ہیں آنکھیں منتظر تکیے تلے بے چینیاں رکھے
نہ نیندیں دسترس میں ہیں نہ سپنے ہاتھ آتی ہیں
آنکھ کے شرک سے بھی خود کو بچائے رکھا
تیری فرقت میں کہیں اور نہ دیکھا ہم نے
میں بہت دنوں سے اداس ہوں
مجھے کوئی شام ادھار دو
جسے دیکھا اسے مخلص جانا
نگاہوں نے بڑے دھوکے دیئے صاحب
اشک میں گوندھے تبسم کو تبسم مت کہو صاحب
دل لگی کچھ اور ہے دل کی لگی کچھ اور ہے
آتشِ عشق میں جلنا پروانے کا ثانی نہیں
ایک تو پر جلتے ہیں اور ایک جان جاتی ہے
ہماری آنکھیں اداس غزلوں کے قافیے ہیں
ہمارا چہرہ پرانے وقتوں کی شاعری ہیں
پھر بانسری بجی ہے کہیں درد سے بھری
پھر رو پڑی ہیں میرے خیالوں کی شوخیاں
تمہارے ابرو کی ایک جنبش میں سندھ ساگر کے رخ کو موڑا
تمہاری خفگی نے جانِ راہب شرارےِ آتش فشاں کیے ہیں
ہزاروں عیب تھے مجھ میں مجھے معلوم تھا یہ بھی
مگر ایک شخص تھا ناداں سا مجھے انمول کہتا تھا
کرب چہرے سے ماہ و سال کا دھویا جائے
آج فرصت سے کہیں بیٹھ کے رویا جائے
سوچا نہ تھا کہ ہو گی یوں بھی کہانی ختم
یعنی محبتوں کی ہر اِک نشانی ختم
دامن میں کوئی چاند ستارہ نہ آفتاب
جگنو پہ انحصار تھا وہ بھی نہیں رہا
جب بدلتے ہیں موسم تو پرندوں کے گھر بدل جاتے ہیں
محل تو وہی رہتے ہیں نوکر بدل جاتے ہیں یہ اپنے اپنے نصیب اور مقدر کی بات ہے
کہ راستے وہی رہتے ہیں مگر لوگ بدل جاتے ہیں